اگر اب بھی کرفیو نہ لگایا تو بہت دیر ہوجائے گی!

کرونا وائرس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ چین سے شروع ہونے والا یہ وائرس اب پوری دنیا میں پھیل چکا ہے، کوئی بھی ملک ایسا نہیں جہاں کرونا کا کیس سامنے نہ آیا ہو۔ دنیا بھر میں جان لیوا وائرس سے متاثرا افراد کی تعداد 5 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ یہ وائرس کتنی تیزی سے پھیل رہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شروع کے دو مہینوں میں مریضوں کی تعدادصرف 1 لاکھ تھی جبکہ گزشتہ 1 ماہ میں حیران کن طور پر کرونا وائرس کے 4 لاکھ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
دوسری جانب 1 لاکھ مریض مکمل طور پر صحتیاب جبکہ 21 ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
مہلک وائرس نے پاکستان میں بھی پنجے گاڑ لیئے ہیں۔ پاکستان میں پہلا کیس 26 فروری کو رپورٹ ہوا، جس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں اس وقت مشتبہ کیسز کی تعداد 7 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔
اس حوالے سے حکومتی انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کی قابلیت کا تو گزشتہ 18 ماہ میں اندازہ ہو ہی گیا تھا، تاہم اب عمران خان صاحب سمیت پوری حکومت کی نیت پر بھی شک ہوتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ کرونا وائرس کے کیسز سامنے آنے کے بعد چین، برطانیہ، یورپ اور بھارت سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں کرفیو لگانے کا اعلان کیا گیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مہلک وائرس ایک شخص سے دوسرے شخص میں تیزی سے منتقل ہوتا ہے۔
تاہم پاکستان میں 7 ہزار مشتبہ کیسز سامنے آنے کے بعد بھی کرفیو لگانے کا اعلان نہیں کیا گیا۔ 
ہمارے پاس امریکہ کی مثال موجود ہے، جہاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ کہہ کر کرفیو لگانے سے انکار کردیا تھا کہ کرفیو سے امریکی معیشت کو نقصان پہنچ سکتا ہے، تاہم اس بیان کے ٹھیک 5 دن بعد ٹرمپ نے امریکہ کی کئی ریاستوں میں مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا، لیکن افسوس! بہت دیر ہوچکی تھی۔
چند ہی دنوں میں امریکہ میں کرونا وائرس کے کل کیسز کی تعداد 65 ہزار تک پہنچ چکی ہے، اگر گزشتہ 24 گھنٹوں کی بات کی جائے تو امریکہ میں 10 ہزار کے قریب کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
پاکستان میں بھی حالات کچھ ایسے ہی ہیں۔ ہمارے وزیراعظم جنہیں ہم نے ووٹ دے کر منتخب کیا، فرماتے ہیں کہ اگر ملک میں کرفیو لگایا تو ملک کی معیشت تباہ ہوجائے گی۔ ہم بھی مانتے ہیں کہ مکمل کرفیو لگانے سے معیشت کو نقصان پہنچے گا لیکن کرفیو لگانا وقت کی ضرورت ہے کیونکہ معیشت لوگوں کی جانوں سے زیادہ عزیز نہیں اور نہ ہی کبھی معیشت لوگوں کی جانوں سے زیادہ عزیز ہوسکتی ہے۔